نئی دہلی 25 اکتوبر (آئی این ایس انڈیا/ ایس او نیوز)ملک کے سب سے معزز اور باوقار تفتیشی ایجنسی سی بی آئی میں رشوت خوری کا معاملہ اب دو چند ہوگیا ہے ۔ اس نے اب سیاسی رخ بھی اختیار کرلیا ہے ۔ آلوک ورما نے بجا طور پر کہا ہے مرکزی سرکار براہ راست اس معاملہ میں مداخلت کررہی ہے ۔ آلو ک ورما نے عدالت عظمیٰ میں داخل عرضی میں اشارہ کیا ہے کہ حکومت نے سی بی آئی کے کام کاج میں مداخلت کرنے کی کوشش کی ہے ۔ 23 اکتوبر کو راتوں رات رپیڈ فائرکے طور پر سی وی سی اور ڈی او پی ٹی نے تین احکامات جاری کیے۔یہ فیصلے من مانے اور غیر قانونی ہیں، انہیں منسوخ کیا جانا چاہئے۔ آلوک ورما کی طرف سے دائر عرضی کے چند یوں نکات یوں ہیں ۔ 1سی بی آئی سے امید کی جاتی ہے کہ وہ ایک آزاد اور خود مختار ایجنسی کے طور پر کام کرے گی۔ ایسے حالات کو نہیں ٹالا جا سکتا، جب اعلی عہدوں پر بیٹھے لوگوں سے متعلق تحقیقات کی سمت حکومت کی مرضی کے مطابق نہ ہو۔ حالیہ دنوں میں ایسے کیس آئے جن میں تفتیشی افسر سے لے کر جوائنٹ ڈائریکٹر / ڈائرکٹر تک کسی خاص ایکشن تک متفق تھے، لیکن صرف اسپیشل ڈائریکٹر کی رائے الگ تھی۔سی وی سی، مرکز نے راتوں رات مجھے سی بی آئی ڈائریکٹر کے رول سے ہٹانے کا فیصلہ لیا اور نئے شخص کی تقرری کا فیصلہ کیا، جو کہ غیر قانونی ہے۔ حکومت کا یہ قدم DSPE ایکٹ کے سیکشن 4۔b کے خلاف ہے، جو سی بی آئی ڈائریکٹر کی آزادی کو یقینی بنانے کے لئے دو سال کا وقت کا تعین کرتا ہے۔ DSPE ایکٹ کے سیکشن 4 A کے مطابق سی بی آئی ڈائریکٹر کی تقرری وزیر اعظم، حزب اختلاف کے رہنما اور چیف جسٹس کی کمیٹی کرے گی۔ سیکشن 4b (2) میں سی بی آئی ڈائریکٹر کے ٹرانسفر کے لئے اس کمیٹی کی منظوری ضروری ہے۔ حکومتی ہدایت اس کی خلاف ورزی کرتا ہے۔اس سے پہلے سپریم کورٹ بھی سی بی آئی کو حکومت کے اثرات سے آزاد کرنے کی بات کر چکا ہے۔حکومت کے اس قدم سے صاف ہے کہ سی بی آئی کو DOPT سے آزاد کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے سی بی آئی کے حکام پر پورا بھروسہ ہے، اور اس طرح کی غیر قانونی مداخلت حکام کے حوصلے کو پست کرتی ہے ۔